جون اہلیا کی غزل سے متاثر ھو کر لکھی گئی میری تازہ غزل
میرِ محفل تھے سو محفل سے اٹھائے بھی گئے
(شاعر جون اہلیا)
غزل ثاقب علی ثاقی
ھمیں اسباق محبت کے پڑھائے بھی گئے
اور پھر ھم ھی محبت سے ڈرائے بھی گئے
یوں تو محفل میں کئی بار بلائے بھی گئے
میرِ محفل تھے سو محفل سے اٹھائے بھی گئے
میری آنکھوں کو کئی خواب دکھائے بھی گئے
بارہا وعدے محبت کے بھلائے بھی گئے
بھوک سے مرتے ھوئے لوگ یہاں دیکھے ھیں
سامنے میرے کئی شہر جلائے بھی گئے
تیری خوشنودی کی خاطر ھی یہاں بیٹھے ھیں
ورنہ ھم لوگ کئی بار اٹھائے بھی گئے
تو نے دیکھا ھی نہیں ھم کو پلٹ کر ورنہ
ھم کئی بار ترے شہر میں لائے بھی گئے
کئی دکھ درد ترے ھجر میں دیکھے جاناں
کئی خنجر مرے سینے پہ چلائے بھی گئے
میری غربت نے کیا مجھ سے تماشا ایسا
اپنے تو اپنے مرے یار پرائے بھی گئے
میری آنکھوں میں نظارہ کوئی جچتا ھی نہیں
پس پردہ جو تماشے تھے دکھائے بھی گئے
بن ترے مجھ کو کہیں چین نہ آیا ورنہ
میرے پہلو میں کئی لوگ بٹھائے بھی گئے
میری آنکھوں نے کیئے میرے کئی درد عیاں
ھاں مگر درد کئی دل میں چھپائے بھی گئے
اس قدر ھم پہ کیئے ظلم یہاں لوگوں نے
ھم کئی بار یہاں زندہ جلائے بھی گئے
بس ترا نام سجانے کی اجازت نہ ملی
ورنہ غزلوں میں کئی نام سجائے بھی گئے
پھر بھی قسمت میں جو لکھا تھا وہی ھو کے رھا
ھم حوادث سے کئی بار بچائے بھی گئے
یہ محبت بھی عجب کار زیاں ھے ثاقب
آنسو جتنے بھی سنبھالے تھے بہائے بھی گئے
پھر بھی آیا نہ سکوں دل کو میسر ثاقب
میرے آنگن میں کئی پھول کھلائے بھی گئے
(ثاقب علی ثاقی)
No comments:
Post a Comment