غم سے ھے دل مرا دو چار مرے ساتھ نہ چل
تُو بھی ھو جائے گا بیزار مرے ساتھ نہ چل
یہ محبت تو مصیبت کی طرح ھوتی ھے
تُجھ کو ھونا نہ پڑے خوار مرے ساتھ نہ چل
تیرا دامن تو گلابوں سے بھرا لگتا ھے
میری قسمت میں ہیں بس خار مرے ساتھ نہ چل
مجھ کو جانا ھے کسی دشت کی جانب تنھا
منتّیں کرتا ھوں اِس بار مرے ساتھ نہ چل
آج کی رات ذرا دیر مجھے سونے دے
منظرِ دیدہء بیدار مرے ساتھ نہ چل
جانے کیوں اُس کو مسافت کی پڑی تھی ثاقب
میں تو کہتا تھا مرے یار مرے ساتھ نہ چل
ثاقب علی ثاقی
No comments:
Post a Comment