غزل
دل بے تاب کی حالت نہیں دیکھی جاتی
اب محبت میں عداوت نہیں دیکھی جاتی
لوگ ھنستے ہیں مرے حال پہ آتے جاتے
مجھ سے اب اور ذلالت نہیں دیکھی جاتی
دل ناداں کی ضرورت کو نہ دیکھو یارو
روز و شب کی یہ مشقت نہیں دیکھی جاتی
آتے جاتے ہوئے لوگوں سے مراسم نہ بڑھا
ھم سے رشتوں کی تجارت نہیں دیکھی جاتی
پاس آتے ھو کبھی دور چلے جاتے ھو
پاس آتے ھو کبھی دور چلے جاتے ھو
اب محبت میں شرارت نہیں دیکھی جاتی
غم ہستی سے کہو یوں نہ رلائے ھم کو
غم ہستی سے کہو یوں نہ رلائے ھم کو
اب کوئی اور قیامت نہیں دیکھی جاتی
ان کی محفل میں جو بیٹھے ھیں اٹھا دو سب کو
ان کی محفل میں جو بیٹھے ھیں اٹھا دو سب کو
دل سے اب اور رقابت نہیں دیکھی جاتی
ترے لہجے میں یہ آواز کہاں سے اتری
ترے سینے کی کدورت نہیں دیکھی جاتی
مجھ سے کہتے ھیں مرے یار پرانے ثاقب
مجھ سے کہتے ھیں مرے یار پرانے ثاقب
No comments:
Post a Comment