Wednesday, October 24, 2012

saqib ali saaqi غزل

              
           (غزل)


آج پھر اک نیا حادثہ ھو گیا

شہر کا شہر بے آسرا ھو گیا



ایک پل میں یہاں کیا سے کیا ھو گیا

جو خطاوار تھا پارسا ھو گیا



اے خدا قوم سے جرم کیا ھو گیا

جو لٹیرا تھا وہ رہنما ھو گیا



غیر سے اب کروں کیا شکایت کوئی

جو مرا تھا وہی غیر کا ھو گیا



سب کے سب تجھ کو آنکھیں دکھانے لگے

امت مسلمہ تجھ کو کیا ھو گیا



شیخ جی آپ بھی لڑکھڑانے لگے

پارسا کون ھے فیصلہ ھو گیا



یہ طلسمِ محبت بھی کیا چیز ھے

دیکھ پتھر سے وہ آئنہ ھو گیا



اجنبی شھر میں اجنبی لوگ تھے

آپ جب سے ملے حوصلہ ھو گیا


اک دریچہ کھلا زندگی کی طرف

آپ سے جب مرا رابطہ ھو گیا



جو مرا واقف حال تھا کل تلک

آج ٹوٹا تو وہ جا بجا ھو گیا



وہ پرندہ تو اپنے پروں سے گیا

جو ھواوں سے نا آشنا ھو گیا



بعد مدت کے وہ مجھ سے ھنس کر ملا

میں بھی سمجھا کے وہ باوفا ھو گیا



حادثے تو بہت سے ھوئے تھے مگر

اب یقینا نیا سانحہ ھو گیا


(ثاقب علی ثاقی)




No comments:

Post a Comment